1965 میں اسرائیلی جاسوس ایلی کوہن کی عوامی طور پر شامی حکومت نے پھانسی دی۔ رپورٹس کے مطابق شامی حکومت کے زوال کے بعد نئی مواقع پیدا ہوئے ہیں، جن کے تحت اسرائیل نے ایلی کوہن کی لاش کی واپسی کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
ایلی کوہن، جو موساد کے ایک مشہور جاسوس تھے، نے 1960 کی دہائی میں شام کے سیاسی اور فوجی طبقات میں اہم معلومات فراہم کیں، جو اسرائیل کی 1967 کی چھ روزہ جنگ میں کامیابی کے لیے اہم ثابت ہوئیں۔ تاہم، 1965 میں ان کی جاسوسی کی سرگرمیاں افشا ہوئیں اور انہیں دمشق کے مرجہ اسکوائر میں عوامی طور پر پھانسی دی گئی۔
ایلی کوہن 1924 میں مصر کے شہر اسکندریہ میں پیدا ہوئے، جہاں ان کا تعلق ایک یہودی خاندان سے تھا۔ اسرائیل کے قیام کے بعد 1948 میں ان کا خاندان اسرائیل منتقل ہو گیا، اور 1957 میں ایلی کوہن بھی اسرائیل آ گئے۔ موساد نے 1960 کی دہائی کے اوائل میں ان کی خدمات حاصل کیں اور انہیں ایک شامی کاروباری شخصیت “کامل امین ثابت” کی شناخت دی۔
اس فرضی شناخت کے تحت، ایلی کوہن نے ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس میں شامی اور عرب کمیونٹی کے ساتھ تعلقات قائم کیے، اور بعد میں 1962 میں دمشق منتقل ہو گئے۔ وہاں انہوں نے شامی معاشرے کے اعلیٰ طبقات میں اپنی جگہ بنائی اور سیاسی و فوجی رہنماؤں سے قریبی تعلقات استوار کیے۔ کوہن نے اپنی رہائش گاہ پر پرتعیش تقاریب کا انعقاد کیا، جہاں شامی حکام شریک ہوتے تھے، اور ان محفلوں کے دوران اہم فوجی معلومات اکٹھی کیں، جن میں گولان کی پہاڑیوں کے دفاعی منصوبے شامل تھے۔ یہ معلومات اسرائیل کو گولان کی پہاڑیوں کو فتح کرنے میں مددگار ثابت ہوئیں۔
جنوری 1965 میں شامی خفیہ ایجنسی نے سوویت یونین کی مدد سے کوہن کے اسرائیل کو بھیجے گئے خفیہ پیغامات کا سراغ لگایا۔ 24 جنوری 1965 کو ان کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کیا گیا۔ ان پر جاسوسی کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور 18 مئی 1965 کو دمشق میں انہیں عوام کے سامنے پھانسی دی گئی۔
ایلی کوہن کی لاش کے مقام کے حوالے سے کئی دہائیوں سے تنازع چل رہا ہے۔ شام نے اسرائیل کی جانب سے قیدیوں کے تبادلے کی پیشکشوں کو کئی بار مسترد کیا، اور مبینہ طور پر کوہن کی لاش کو مختلف مواقع پر منتقل کیا تاکہ اسے واپس لانے کی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ 2018 میں موساد نے شام سے ایلی کوہن کی کلائی والی گھڑی برآمد کی۔ اب شامی حکومت کے مختلف علاقوں میں زوال کے بعد اسرائیل کو مذاکرات کا موقع ملا ہے۔ ان مذاکرات میں اسرائیلی حکام اور بشار الاسد حکومت کے سابق ارکان روسی ثالثی کے ذریعے شامل ہیں۔