پاکستانی سیاسی حالات کا خلاصہ: کپتان کی حکومت، بحران، اور نتائج
مارچ 2022ء میں وزیرِاعظم عمران خان اور وزیرِاعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد دائر کی گئی۔ اتحادی جماعتیں ایک ایک کر کے علیحدہ ہوئیں، جس کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت کمزور پڑتی گئی۔ قومی اسمبلی میں 9 اپریل کو عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی، جس میں 174 ووٹ سے انہیں عہدے سے ہٹایا گیا۔
اسی دوران پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کو وزیرِاعلیٰ نامزد کیا گیا، لیکن حالات پیچیدہ رہے۔ حمزہ شہباز نے اپریل میں وزیرِاعلیٰ کا حلف لیا، تاہم یہ سلسلہ عدالتوں تک جا پہنچا اور معاملہ طول پکڑتا رہا۔ جولائی میں سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کی انتخابی جیت کو کالعدم قرار دیا اور چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ نامزد کیا۔
ضمنی انتخابات اور کپتان کا عروج
جولائی 2022ء میں 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریکِ انصاف نے 15 نشستیں جیت کر اپنی سیاسی برتری ثابت کی۔ یہ کامیابی عمران خان کے لیے قبل از وقت انتخابات کی خواہش کو تقویت دینے کا سبب بنی، لیکن سیاسی مخالفین، خصوصاً پی ڈی ایم، نے انتخابات کو روکنے کی کوششیں کیں۔
اسمبلیوں کی تحلیل
جنوری 2023ء میں عمران خان نے اپنی حکمتِ عملی کے تحت پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں تاکہ ملک میں فوری انتخابات کرائے جا سکیں۔ لیکن پی ڈی ایم نے اس اقدام کے باوجود انتخابات ملتوی کرائے اور نظام کو برقرار رکھا۔
سیاسی بحران اور 9 مئی کے واقعات
عمران خان کی گرفتاری اور 9 مئی کے ہنگاموں نے تحریکِ انصاف کی سیاست کو مزید مشکلات میں ڈال دیا۔ پارٹی کے رہنما آپس میں اختلافات کا شکار ہوئے اور سوشل میڈیا پر الزامات کی سیاست شروع ہو گئی۔
حالیہ صورتحال
عمران خان گزشتہ کئی ماہ سے جیل میں ہیں، اور تحریکِ انصاف قیادت کے بحران کا شکار ہے۔ پارٹی اندرونی اختلافات اور کمزور حکمت عملیوں کی وجہ سے سیاسی میدان میں پس منظر میں چلی گئی ہے۔
یہ حالات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ سیاسی اتحادوں، قانونی جنگوں، اور عوامی فیصلوں نے پاکستانی سیاست کو کیسے تشکیل دیا ہے، جہاں ہر قدم نئی پیچیدگیاں پیدا کر دیتا ہے۔