
ترک اسٹریٹجک ماہر عبد اللہ چفتچی نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ ترکیہ، امریکہ اور اسرائیل کسی بڑی جنگ سے گریز چاہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود شام کی سرزمین پر ایک محدود اور قلیل مدتی جھڑپ ہونے کا امکان موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ تصادم ایک یا دو دن کی نوعیت کا ہو سکتا ہے اور اس کا دائرہ کار کسی بڑی جنگ میں تبدیل ہونے کا امکان نہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اس وقت سیاسی غیر یقینی کا شکار ہیں، اور اسی وجہ سے وہ کوئی ایسا اقدام کر سکتے ہیں جس سے ان کی داخلی ساکھ کو سہارا ملے۔چفتچی کے مطابق، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاملے میں نیتن یاہو کو متنبہ بھی کیا کہ اگر وہ مسئلے کا حل چاہتے ہیں تو انہیں اعتدال اختیار کرنا ہوگا، جس کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو ترکیہ سے براہ راست تصادم سے روکنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل ماضی میں کسی سنجیدہ ریاست کے ساتھ جنگی تصادم میں ملوث نہیں رہا۔
وہ زیادہ تر نہتے شہریوں، خواتین اور بچوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔ جب کہ ترکیہ کا مؤقف ہے کہ وہ شام کو غیر محفوظ نہیں چھوڑ سکتا، اس لیے وہاں فضائی اڈہ قائم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔چفتچی نے یہ بھی عندیہ دیا کہ نیتن یاہو کی موجودہ پوزیشن اس قدر نازک ہے کہ اگر وہ شام پر حملہ نہ کریں تو ان کی حکومت گر سکتی ہے۔ نیتن یاہو نے خود ترکیہ کے خلاف اسرائیلی معاشرے میں نفرت کو ہوا دی ہے جو اب ان کے خلاف جا سکتی ہے۔ترک تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ممکن ہے نیتن یاہو امریکہ کی حمایت کے بغیر ہی شام میں ترکیہ کے خلاف محدود کارروائی کریں تاکہ وہ اس صورتحال کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر سکیں۔ تاہم، ترک فوج، انٹیلیجنس اور قیادت اس ممکنہ منظرنامے سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔