گیارھویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
اس اقتباس میں ایک پر اسرار اور دہشت گرد ماحول کی عکاسی کی گئی ہے جس میں چڑیلوں، جنات اور روحانی طاقتوں کے درمیان ایک پیچیدہ اور سنسی خیز کہانی چل رہی ہے۔ مرکزی کردار، شاہد، جو حالات کی وجہ سے اکیلا اور پریشان ہے، ایک روحانی اور ماورائی دنیا میں پھنس کر رہ گیا ہے۔
کہانی میں بابا جی اور پیر ریاض شاہ جیسے روحانی شخصیات کے کردار ہیں جو گہرے اثرات رکھتے ہیں۔ ان کے ذریعے روحانی جادو، جنات اور چڑیلوں کا ایک پیچیدہ کھیل جاری ہے، اور شاہد کو ان سب کے درمیان اپنا راستہ نکالنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ نصیر اور اس کے والد کے درمیان کشمکش، شادی کے بارے میں مختلف رویے، اور روحانی اثرات کا تذکرہ کہانی کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔
مجموعی طور پر، یہ اقتباس سسپنس اور ماورائی کہانی کے عناصر کو بھرپور طریقے سے پیش کرتا ہے، جہاں ہر کردار کے اندر ایک مخصوص طاقت، خوف، یا غیر فطری اثرات کی موجودگی نظر آتی ہے۔
شاہد کا ذہن ابھی تک پراگندہ تھا۔ نصیر کے انداز اور بابا جی کی طاقت کا اثر اس پر تھا، مگر ساتھ ہی اس کے اندر ایک خلش بھی بڑھ رہی تھی۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہا تھا کہ اس حویلی میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ وہ جو کچھ بھی دیکھ رہا تھا، وہ حقیقت سے زیادہ ایک کہانی کی طرح لگ رہا تھا، جس میں وہ خود ایک بے بس کردار کی طرح گھوم رہا تھا۔
“یہ سب کیا ہو رہا ہے؟” اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔
اسی دوران، نصیر نے اس کی طرف رخ کیا، “تم کیوں خاموش ہو شاہد؟ کچھ کہنا ہے؟”
شاہد نے گہری سانس لی اور پھر آہستہ سے بولا، “میں تمہاری باتوں سے متفق نہیں ہوں، نصیر۔ اس شادی کے بارے میں کچھ تو ہے جو ٹھیک نہیں لگتا۔”
“شادی؟” نصیر نے سوالیہ انداز میں پوچھا، “کیا تمہیں لگتا ہے کہ بابا جی جو بھی کر رہے ہیں، وہ غلط ہے؟”
“نہیں، ایسا نہیں ہے۔” شاہد نے جلدی سے کہا۔ “پر مجھے یہ لگتا ہے کہ ہمارے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ اور پھر وہ چڑیلیں، جن کا بابا جی نے ذکر کیا تھا… کیا یہ سب صرف کہانیاں ہیں؟”
“اب تم اور تمہاری باتوں کا کیا بنے گا؟” نصیر نے سر جھٹکتے ہوئے کہا، “بابا جی نے ہمیشہ ہمیں صحیح راستہ دکھایا ہے۔ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں، وہ ہماری حفاظت کے لیے ہے۔”
“لیکن… کیا ہمیں اس کے پیچھے چھپے رازوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟” شاہد نے جملہ مکمل کیا۔
“ہم سب کچھ جان نہیں سکتے، شاہد۔” نصیر نے کہا، “یہ صرف ہمارے لیے نہیں ہے کہ ہم ہر چیز کو جانیں۔”
شاہد نے اس کی باتوں پر غور کیا۔ اس کے ذہن میں سوالات کا ایک طوفان تھا، لیکن پھر بھی اس نے اپنی خاموشی کو ترجیح دی۔
اسی دوران، ایک ہلکی سی آواز آئی۔ “شاہد، نصیر، بابا جی تمہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔”
یہ آواز غازی کی تھی، جو دروازے کے قریب کھڑا تھا۔
“ہم فوراً آتے ہیں۔” نصیر نے کہا، اور دونوں اٹھ کر بابا جی کے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
جیسے ہی وہ بابا جی کے کمرے میں پہنچے، بابا جی نے انہیں انتہائی سنجیدہ انداز میں دیکھا۔ “تم دونوں کا ذہن کچھ پراگندہ نظر آ رہا ہے۔ تمہیں چاہیے کہ تم اپنے دلوں کو صاف رکھو، اور جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ایمان رکھو۔”
شاہد نے پوچھا، “بابا جی، کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے؟”
بابا جی کا چہرہ کچھ لمحوں کے لیے غمگین ہوگیا۔ پھر انہوں نے آہستہ سے کہا، “مجھ پر یقین رکھو، بیٹا، میں جو کچھ کر رہا ہوں، وہ تمہارے اور تمہارے پیاروں کے لیے ہے۔ جو راستہ میں نے چنا ہے، وہ تمہیں کامیابی کی طرف لے جائے گا، مگر تمہیں ہر حال میں اس راستے پر چلنا ہوگا۔”
شاہد کے دل میں کئی سوالات اُٹھ رہے تھے، مگر اس نے بابا جی کی باتوں کو چیلنج کرنے کی بجائے خاموش رہنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔
بابا جی نے پھر نصیر سے کہا، “تم نے اپنے والد کی عزت کا خیال رکھا ہے، لیکن تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ عزت اور طاقت میں فرق ہوتا ہے۔”
نصیر نے سر جھکایا اور کہا، “جی بابا جی، میں سمجھتا ہوں۔”
“اچھا، اب تم دونوں جا سکتے ہو۔ وقت ضائع نہ کرو۔ تمہیں کچھ اہم کام کرنا ہے۔” بابا جی نے اپنی بات مکمل کی اور دونوں کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔
شاہد اور نصیر باہر نکلے، اور شاہد نے ایک آخری بار بابا جی کی طرف نظر دوڑائی۔ وہ جو کچھ بھی کر رہے تھے، اس کا مقصد کیا تھا؟ اس کا دل شک و شبہات سے بھرا ہوا تھا، اور وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخرکار کیا راز چھپے ہوئے ہیں۔
اسی لمحے نصیر نے اس کی طرف دیکھا اور کہا، “آؤ شاہد، تم اور میں مل کر ان سب چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔”
شاہد نے سر ہلا کر کہا، “ہاں، شاید یہی بہترین راستہ ہو۔”
دونوں آگے بڑھتے گئے، لیکن شاہد کے دل میں ایک سوال تھا، جو اسے چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔ کیا وہ اس راستے پر چلنے والے تھے جس سے وہ کبھی واپس نہیں آ سکیں گے؟