بارھویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
“شاید اسے میری نظر لگ گئی ہے، میں ہی تو اسے دیکھ رہا تھا”، آہ نکلی۔
“اٹھاؤ اسے… اور نیچے لے آؤ”، شاہ صاحب کا چہرہ پسینے سے تر تھا۔ میں حیران تھا کہ انہیں اس قدر پسینہ کیوں آیا ہے۔
“جلدی کرو”، وہ بے چین ہو کر بولے اور ان کی بے قراری صاف ظاہر تھی، “وار بہت سخت کیا گیا ہے، اس کا توڑ جلدی کرنا ہے۔”
“شاہ صاحب، میرے بابا جی کو بلاؤ، جلدی کرو۔ بابا جی کو بلاؤ، ہائے اللہ میری بچی!” چاچی روتی ہوئیں پکار اُٹھیں۔
“بابا جی سرکار اس وقت نہیں آ سکتے”، شاہ صاحب نے کہا، “مجھے کچھ کرنا ہو گا۔” پھر وہ میری طرف دیکھ کر بولے، “تم میرے ساتھ چلو۔” نصیر نے زلیخا کو اُٹھایا اور نیچے زنان خانے لے گیا، اور شاہ صاحب مجھے مہمان خانے میں لے گئے۔
“دیکھو، اس وقت مجھ سے سوالات مت کرنا، زلیخا کی زندگی خطرے میں ہے۔ میں جانتا ہوں تم نہیں چاہو گے کہ وہ مر جائے۔ حویلی میں مقیم جنات نے اپنی چڑیل کی موت کا بدلہ لینے کے لئے زلیخا پر وار کیا ہے۔ خوش قسمتی سے، مجھے فوراً پتہ چل گیا۔”
“آپ کو کیسے پتہ چلا؟ آپ تو آرام کر رہے تھے۔” میں سوال کیے بغیر نہ رہ سکا۔
“ہم کبھی نہیں سوتے”، شاہ صاحب نے بے ساختہ کہا، “سنیں، ہماری دنیا تمہاری دنیا سے بہت مختلف ہے۔ ہماری دوستیاں اور دشمنیاں بہت مہنگی ہوتی ہیں، اور اس کا ہمیں خراج دینا پڑتا ہے۔ نیند بھی ایک قسم کا خراج ہے۔ ہم بظاہر سو رہے ہوتے ہیں مگر ہماری روح ہمیں بچاتی ہے۔ اس لئے ہمارا پورا بدن دکھتا ہے، جیسے آگ بدن کو جلا دیتی ہو۔ تم کسی عامل کا بدن چھو کر دیکھو، تمہیں لگے گا جیسے دہکتے ہوئے گوشت کو چھو لیا ہو۔ میں اس وقت آرام کر رہا تھا جب کافر جنات زلیخا پر حملہ کرنے کے لئے آئے تھے، لیکن میری روحانی قوتوں نے مجھے خبردار کر دیا، مگر افسوس کہ تب تک حملہ ہو چکا تھا۔ خیر،”
میں خاموش ہو کر شاہ صاحب کی باتیں سن رہا تھا، جو نہ جانے کیوں میرے سامنے کھل کر بات کر رہے تھے۔
“دیکھو، بابا جی آج دستیاب نہیں ہیں، اس لئے میں نے کہا تھا کہ پولیس کو میرے بارے میں نہ بتانا۔ میں نصیر کے کہنے پر پردہ کر گیا تھا۔ اتنی طاقت ہے مجھ میں کہ میں لوگوں کی نظروں سے چھپ سکتا ہوں، لیکن روحانی علوم میں بعض معاملات ایسے ہیں جو پردہ کرنے کے باوجود بھی عامل کو بے بس کر دیتے ہیں۔ میں زلیخا کو ہوش میں لا سکتا ہوں، لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا۔ میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے ایک پیالہ خون چاہیے، تم فوراً اس کا انتظام کر دو۔”
“خ… خون؟ کس کا؟” میں بوکھلا کر پوچھا اور شاہ صاحب کی طرف دیکھا۔
“تمہارا”، وہ رکے رکے بولے، اور مجھے یوں لگا جیسے میں ایک انسان کے سامنے نہیں، بلکہ کسی درندے کے سامنے کھڑا ہوں، اور وہ مجھ سے میری رضا سے کچھ مانگ رہا ہے۔