نویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
ایک نرم اور پرنور ماحول تھا، کمرہ خوشبو سے مہک رہا تھا۔ سب حاضرین خاموشی سے آنکھیں بند کیے غلام محمد کی دلکش آواز میں نعت سن رہے تھے۔ اس روحانی ماحول میں، میں نے محسوس کیا کہ کمرے میں کچھ اور بھی موجودات ہیں جن کی موجودگی ہوا میں ایک مخصوص گرمی اور دباؤ پیدا کر رہی تھی۔ بابا جی کے حکم کے مطابق سب کو آنکھیں بند رکھنی تھیں، لیکن میرے دل میں تجسس مچل رہا تھا کہ آنکھیں کھول کر دیکھوں کہ اس کمرے میں کیا ہو رہا ہے۔
کچھ دیر پہلے جب بابا جی بستر پر دراز تھے، زلیخا اور نصیر ان کی خدمت کر رہے تھے، تب کسی نے آنکھیں بند کرنے کو نہیں کہا تھا۔ لیکن اب ماحول میں ایک عجیب سا تقدس تھا، جسے محسوس کر کے میں خود کو قائل کرنے لگا کہ شاید اس بار کچھ غیرمعمولی ہو رہا ہے۔
اسی اثنا میں، غازی میرے قریب آیا اور بولا، ’’چاچا جی، دماغ ٹھیک ہے؟‘‘ میں کچھ کہتا کہ بابا جی کی آواز گونجی، ’’غازی، خاموش ہو جاؤ۔ جانتے نہیں یہ محفل کس کے لیے سجی ہے؟‘‘ ان کی آواز میں ایک عجیب سا دبدبہ تھا۔
بابا جی نے نرمی سے کہا، ’’ملک، ادھر آ جاؤ اور ادب سے بیٹھ کر نعت سنو۔ ہر وقت تجسس میں نہ رہو۔‘‘ میں شرمندہ ہو گیا اور غازی کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ بابا جی نے مجھے آم کی قاشیں پیش کیں اور کہا، ’’کبھی کبھی دل آم کھانے کو چاہتا ہے۔ تم جیسے محبت کرنے والے ہمیں عطا کرتے ہو، یہ تمہاری مہربانی ہے۔‘‘ میں نے عقیدت سے قاشیں لے لیں اور غازی کو بھی دے دیں، جو بے ساختہ کھانے لگا۔
بابا جی نے غلام محمد سے دوبارہ نعت پڑھنے کو کہا۔ میں نے دروازے کی طرف دیکھا، وہاں غلام محمد کے ساتھ کئی بلند قامت لوگ عربی لباس میں ملبوس کھڑے تھے۔ وہ مدینہ سے آئے مہمان تھے اور بابا جی کے لیے تحائف لائے تھے۔ بابا جی نے ان کے لائے تحائف میں سے ایک سنہری ٹوپی اور تسبیح مجھے دی، اور باقی سامان زلیخا اور نصیر کو تقسیم کر دیا۔ ان تحائف کو پا کر میرے دل میں خوشی اور سکون کی لہر دوڑ گئی۔
نعت کی محفل ختم ہونے کے بعد بابا جی نے فجر کا وقت ہوتے ہی کہا، ’’اب ہمیں اجازت دو۔‘‘ ان کے ساتھ موجود مہمانوں نے ان پر گلاب کے پھول برسائے، اور پھر سبھی ایک نورانی روشنی میں غائب ہو گئے۔
صبح ہوئی تو میں کچہری جانے کی تیاری کرنے لگا۔ بابا جی کی ہدایت کے مطابق، شیشم کے درخت کے نیچے بیٹھے ایک درویش کے لیے شکر، گھی، اور روٹی لے کر گیا۔ وہاں پہنچ کر، درخت کے نیچے ایک کمزور مگر پراسرار شخصیت بیٹھی نظر آئی۔ جب میں نے اسے یہ تحائف پیش کیے، تو اس نے عجیب انداز میں مجھے دعا دی اور کہا کہ جو کچھ کہا جائے، اس پر عمل کرنا۔
یہ درویش عام لوگوں سے مختلف تھا۔ اس کے الفاظ اور حرکات سے ایک روحانی کیفیت جھلک رہی تھی۔ اس واقعے نے میری زندگی پر ایک انمٹ نقش چھوڑا اور مجھے یہ احساس دلایا کہ کچھ شخصیات دنیا کی عام نظروں سے اوجھل ہو کر بھی غیرمعمولی اثر رکھتی ہیں۔