
چھٹی قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
…خدمت میں لگا ہوا ہے، اور ان کی ہر بات پر اندھا یقین کیے بیٹھا ہے۔ نہ جانے یہ کس راستے پر چل نکلے ہیں۔ مجھے فکر ہے کہ یہ سب کہیں ہمیں کسی بڑے مسئلے میں نہ ڈال دے۔“
چاچا جی کے الفاظ میں گہری مایوسی اور بے بسی چھپی ہوئی تھی۔ میں ان کی باتوں کو غور سے سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ سب کس قدر الجھا ہوا معاملہ ہے۔
”چاچا جی، آپ کو چاہیے کہ ان سب کو سمجھائیں۔ یہ جو پیر صاحب اور ان کے جنات کی کہانیاں ہیں، اکثر یہ لوگوں کو بہکانے کے لیے ہوتی ہیں۔ آپ کو ان کے جال سے باہر آنا ہوگا،“ میں نے ان سے کہا۔
انہوں نے ایک لمبی آہ بھری اور بولے، ”پتر، میں کیا سمجھاؤں؟ یہ لوگ تو میری بات سنتے ہی نہیں۔ نصیر تو جیسے ان کے سحر میں گرفتار ہو چکا ہے، اور زلیخا…“ انہوں نے رک کر گہری سانس لی۔ ”زلیخا تو بیچاری ویسے ہی گم سم اور اداس رہتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس کے دل میں کیا چل رہا ہے۔ وہ کسی سے بات بھی نہیں کرتی۔“
میں نے زلیخا کا ذکر سن کر دل میں ایک عجیب سی بے چینی محسوس کی۔ اس کی اداس آنکھیں اور خاموش طبیعت میرے ذہن میں گھومنے لگیں۔
”چاچا جی، آپ فکر نہ کریں۔ میں یہاں ہوں، اور میں کوشش کروں گا کہ اس معاملے کو سمجھ سکوں۔ لیکن مجھے آپ کا ساتھ چاہیے۔ آپ میری مدد کریں گے؟“
انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا، ”پتر، اگر تو نے میری مدد کی تو شاید ہم اس گھر کو دوبارہ پرسکون بنا سکیں۔“
میں نے ان کی بات پر سر ہلایا اور دل میں عزم کیا کہ میں ان سب الجھنوں کا حل نکال کر رہوں گا۔ اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ آنے والے دن میرے لیے کیا آزمائشیں لے کر آئیں گے۔ لیکن ایک بات طے تھی، اس حویلی میں کچھ ایسا تھا جو میری زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدلنے والا تھا۔