آٹھویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
وہ میرا گریبان پکڑ کر چلانے لگی اور اس لمحے میں میری باقی ساری حواس بھی ختم ہو گئیں۔ میں نے پیر ریاض شاہ کی طرف مدد کی نظر سے دیکھا، لیکن وہ کمرے سے غائب تھا۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ یا تو اس نے یا اس کے بابا جی نے میرے غصے کا بدلہ لینے کے لیے یہ سب کیا تھا، مگر پتر، میں ان زمینداروں جیسا سفاک اور بے رحم نہیں تھا جو اپنی انا اور ضد کی خاطر خون بہاتے ہیں۔ میں کمزور نہیں تھا، مگر اولاد کی محبت نے مجھے بے حد کمزور بنا دیا تھا۔
“شاہ صاحب!” میں نے آواز دی اور کمرے سے باہر نکلا۔ ریاض شاہ اپنا سامان اٹھا کر حویلی سے جا رہا تھا۔ میری آواز سن کر بھی وہ نہیں رکا۔ میں اس کے پیچھے دوڑتا ہوا پہنچا تو میری سانس پھول چکی تھی۔ “شاہ صاحب!” میرے ہاتھ خودبخود جوڑ گئے اور معافی کے لیے وہ بلند ہونے لگے۔ میری آنکھوں میں بے کسی اور بے بسی کے آثار تھے۔ لبوں سے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ میرا اندر ٹوٹ چکا تھا، دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔ پتر، میں مر چکا تھا۔ اپنی بچی کی زندگی کے لیے میں مر چکا تھا۔
شاہ صاحب کے چہرے پر فتح کا تاثرات تھے اور میرے ہاتھ جو بلند تھے، ایک بھکاری کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ وہ برابر مسکراتا رہا۔ شاید اس کی لالچ ابھی تک مکمل طور پر پوری نہیں ہوئی تھی۔ میں اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جھکنے لگا اور پھر اپنی خودداری کو توڑتے ہوئے، اس کے قدموں میں گرنے لگا۔ اس بار اس نے مجھے کاندھوں سے پکڑ لیا۔
“نہیں ملک صاحب، آپ کی جگہ ہمارے دل میں ہے” پھر وہ کچھ کہے بغیر فاتح کی طرح واپس ہوا۔ اس نے زلیخا کی طرف دیکھا اور مجھے پانی لانے کا حکم دیا۔ میں پانی لایا، پھر اس نے کچھ پڑھ کر دم شدہ پانی زلیخا پر چھڑک دیا۔ اس کے بے ہوش جسم میں ایک جھٹکا آیا۔ پیر ریاض شاہ نے پانچ منٹ تک کچھ پڑھا، پھر وہ اس کے سر کے پاس بیٹھ گیا اور شہادت کی انگلی سے اس کے ماتھے پر کچھ لکھا۔ چند لمحوں بعد وہ بولا، اور ایسا لگا جیسے وہ نہیں بلکہ اس کے اندر سے بابا جی بول رہے ہوں۔
“اٹھ میری بچی… اٹھ… شاباش۔”
یقیناً وہ بابا جی ہی تھے جو ریاض شاہ کے اندر سے بول رہے تھے۔ ایک لمحے کے لیے مجھے گمان ہوا کہ شاید ریاض شاہ نے بابا جی کا بھیس اپنایا ہو، مگر یہ وہم جلد ہی زائل ہو گیا۔
زلیخا کے چہرے سے تناؤ ختم ہو گیا، اس کی آنکھیں نارمل ہو گئیں، اور وہ ایسے اٹھی جیسے بے ہوش نہ ہوئی ہو۔ پہلے تو وہ ہم تینوں کے چہرے دیکھتی رہی، پھر سر پر دوپٹہ درست کرنے لگی۔
“بابا جی کہاں ہیں؟” وہ آہستہ سے بولی۔
اسی وقت ایک ہلکی سی آواز آئی، “میری بچی… میں یہی ہوں۔”
میں نے پلٹ کر دیکھا، اور ایک دراز قامت انسان سفید لباس میں ملبوس کھڑا تھا۔ اس کے سر پر سفید چادر تھی اور سر جھکا ہوا تھا۔
“بابا جی سرکار!” پیر ریاض شاہ اٹھنے لگا، تو بابا جی نے ہاتھ لگا کر اسے اٹھنے نہ دیا۔ وہ زلیخا کے قریب گئے اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولے، “میں نے تمہیں زلیخا کہا ہے۔ مجھے تیرے والد سے زیادہ تیری فکر ہے۔” یہ کہہ کر بابا جی نے اپنا چہرہ بلند کیا اور ان کے چہرے کی تفصیلات واضح ہو گئیں۔ سانولی رنگت، سفید دودھیا لمبی داڑھی، اور بڑی سیاہ آنکھیں۔ وہ کسی قدیم اساطیری شخصیت کی مانند تھے۔
“ملک… تم نے ہمارے بیٹے پر شک کیا اور ہمیں ذلیل کیا۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے بیٹے نے تمہیں معاف کر دیا ورنہ ہم تمہیں بدلہ لیے بغیر واپس نہ آتے۔ پھر بھی، تم نے ہمارا دل دکھایا ہے۔”
بابا جی کی شخصیت کا نور اور رعب میرے دل و دماغ پر طاری ہو گیا، اور میں بے اختیار بولا، “بابا جی، مجھے معاف کر دیں۔ میں انسان ہوں، غلطیاں ہو جاتی ہیں۔”
“آہا… اے ابن آدم، تم نے اچھا جواز گھڑ لیا ہے۔ تم جان بوجھ کر غلطیاں کرتے ہو اور پھر جلدی معافی مانگ لیتے ہو، کیونکہ تم خود کو خطا کا پتلا سمجھتے ہو۔ اپنی غلطیوں کا الزام اپنے بزرگوں پر نہ ڈالو۔ یاد رکھو، ابلیس نے بھی غلطی کی، اور وہ پچھتاتا ہے، مگر تم خوش قسمت ہو کیونکہ تم دل سے معافی مانگتے ہو تو اللہ تمہاری خطا معاف کر دیتا ہے۔”
“جی بابا جی، اب میں اپنے دل سے صاف ہو چکا ہوں,” ریاض شاہ نے کہا۔
“زلیخا، میری بچی، آج تمہاری خدمت نہیں ہوگی۔” بابا جی مسکرا کر بولے، “زلیخا، تمہاری ماں حلوہ بہت اچھا بناتی ہے، تم بھی سیکھ لو۔”
زلیخا مسکرا کر بولی، “لیکن بابا جی، آپ کے حلوے کا تو ذائقہ ہمارے حلوے سے کہیں زیادہ لذیذ ہوگا۔”
“تم نے کھایا ہے؟” بابا جی ہنستے ہوئے بولے۔
“جی ہاں، وہ غازی لے کر آیا تھا۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ مجھے کوئی اچھا کھانا کھلائے گا، اور پھر میں اسے کچھ بنوا کر دوں گی۔”
“غازی بہت چالباز ہے، اس نے کہیں سے چوری کا حلوہ لایا ہوگا اور تمہیں کھلا دیا ہوگا۔” بابا جی ہنس پڑے۔
اتنے میں مجھے پیچھے سے ایک سرسراہٹ سنائی دی، “اب آ گیا شیطان۔”
“بابا جی، شکر ہے آپ نے مجھے شیطان کا شاگرد نہیں کہا,” غازی کی آواز آئی، جو ابھی تک سفید لبادے میں چھپا ہوا تھا۔
“بابا جی، میں وہ حلوہ مدینہ سے لایا تھا۔ کیا میں اپنی بہن کو چوری کا حلوہ کھلا سکتا ہوں؟”
“تمہارا کیا پتہ ہے غازی؟” بابا جی ہنستے ہوئے بولے، “غلام محمد کو بلاؤ، سب آ جائیں۔ زلیخا، ایک بڑی دیگ حلوے کی تیار کرو۔”
“لیکن میں تو باولی پوں گا!” غازی مچلتے ہوئے بولا۔
“باولی کہاں سے لاؤ گی؟” زلیخا نے پوچھا۔
“اے ماسی، تمہیں پتہ نہیں تمہاری گائے نے بچھڑا دیا ہے۔ تمہارا ملازم کرموں آج رات سے باڑے میں اس کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔” غازی ہنستے ہوئے بولا۔
“یہ تو خوشخبری ہے!” میں نے کہا۔ “زلیخا، میں گائے کا دودھ لاتا ہوں اور اسے باولی بنا کر دے دیتا ہوں۔” یہ کہہ کر میں نے بابا جی سے اجازت لی اور آدھ گھنٹے بعد واپس آیا۔ کمرے میں خوشگوار ماحول تھا، نصیر بھی وہاں آ چکا تھا۔
بابا جی پلنگ پر آرام سے بیٹھے تھے، نصیر اور زلیخا ان کے پاس بیٹھی تھیں اور پیر ریاض شاہ چٹائی پر ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔ غازی کے قہقہے کمرے میں گونج رہے تھے۔ خوشبو سے کمرے کا ماحول خوشگوار ہو چکا تھا۔
“اجی ملک صاحب، مزہ آ گیا ہے! غازی تو باولی پئے گا اور ہم حلوے کے ساتھ آم کھائیں گے۔” بابا جی کے سامنے ایک بڑی تھالی میں آم رکھے ہوئے تھے اور وہ بڑے مزے سے آم کھا رہے تھے۔
ایک گھنٹہ بعد، جب رضیہ حلوہ لے کر آئی تو اس کی خوشبو سے میرا منہ پانی سے بھر گیا۔ رضیہ نے خوب بادام ڈالے تھے، اور پھر ہم سب نے دعا کے بعد حلوہ کھایا۔