
زبان کی طاقت: ایک اہم سبق
کسی مقام پر ایک بڑی چٹان پڑی تھی۔ مالک نے اسے ہٹانے کے لیے ایک مزدور کو بلایا۔ مزدور نے زور آزمائی کی، لیکن چٹان نہ ہلی۔ مالک قریب کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ مزدور نے بے بسی سے کہا کہ وہ یہ کام نہیں کر سکتا۔ مالک نے مسکرا کر کہا، “تم نے اپنی پوری طاقت استعمال نہیں کی۔ پورے زور سے کوشش کرو، یہ کام ہو جائے گا۔”
مزدور نے دوبارہ بھرپور زور لگایا، لیکن ناکام رہا۔ مالک نے پھر کہا، “تم نے اب تک مکمل طاقت کا استعمال نہیں کیا۔” مزدور خفگی سے بولا، “سر، میں نے حتیٰ کہ گردوں تک کا زور لگا دیا، مگر یہ چٹان میری طاقت سے باہر ہے۔”
مالک ہنس کر بولا، “میرے دوست، تمہارے جسم میں ایک اور طاقتور عضو موجود ہے، جس کا اگر استعمال کرتے، تو یہ چٹان کب کی ہٹ چکی ہوتی۔” مزدور حیرانی سے بولا، “وہ کون سا عضو ہے؟” مالک نے جواب دیا، “زبان۔ اگر تم اپنی زبان سے مدد مانگ لیتے، تو ہم مل کر یہ چٹان ہٹا سکتے تھے۔ لیکن تم نے جسمانی طاقت تو لگائی، مگر زبان کی طاقت نہیں استعمال کی۔”
ایک سبق نیویارک میں
میں اپنی بیٹی کے ساتھ نیویارک میں گھوم رہا تھا۔ ہمیں ایک مقام سے دوسرے مقام پر جانا تھا۔ بیٹی گوگل میپ پر انحصار کر رہی تھی، لیکن ہم راستہ بھٹک گئے۔ میں نے اسے چٹان اور زبان کی کہانی سنائی اور مشورہ دیا کہ زبان کا استعمال کیا کرو، سوال پوچھنے سے نہ گھبراؤ۔
بیٹی نے کہا، “یہاں کے لوگ اپنی دنیا میں مگن ہوتے ہیں، کوئی بات کرنا پسند نہیں کرتا۔” میں نے اسے غلط ثابت کرنے کے لیے قریب موجود ایک جوڑے سے راستہ پوچھا۔ انہوں نے خوش اخلاقی سے نہ صرف سمجھایا، بلکہ ہماری مدد بھی کی۔
میں نے اپنی بیٹی کو سمجھایا کہ زبان دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ جو اس کا درست استعمال سیکھ لیتا ہے، وہ زندگی میں ناکام نہیں ہوتا۔ سوال کرنا علم کا ذریعہ ہے۔ جتنا آپ سوال کریں گے، اتنا سیکھیں گے۔
ایک اور تجربہ
میری ملاقات ایک بزرگ دوست، شکور عالم سے ہوئی، جو نیوجرسی میں رہتے ہیں۔ انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک بار حج کے سفر میں ایک بزرگ جوڑا پہلی بار جہاز میں سوار ہوا۔ وہ ائیرپورٹ پر پریشان بیٹھے تھے کیونکہ انہیں سامان لینے اور باہر نکلنے کا طریقہ نہیں آتا تھا۔ شکور صاحب نے ان کی مدد کی۔
بزرگ نے شکور صاحب کو “فرشتہ” کہا، کیونکہ ان کی بات چیت اور عاجزی نے یہ مدد ممکن بنائی۔ شکور صاحب کا کہنا تھا کہ مثبت اور امید بھری بات چیت ہمیشہ اچھے نتائج دیتی ہے۔
آخری سبق
کرسمس کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ میری چھوٹی بیٹی ایک دکان سے میش میلو خریدنا چاہتی تھی، لیکن قطار لمبی تھی اور وقت کم۔ میں نے بیٹی کو زبان کی طاقت کا عملی مظاہرہ دکھانے کا فیصلہ کیا۔
میں نے قطار میں سب سے آگے کھڑے شخص سے درخواست کی کہ کیا وہ ہمارے آرڈر کے ساتھ ہمارا سامان بھی لے سکتا ہے؟ اس نے خوش دلی سے ہامی بھر لی۔ دو منٹ میں ہم اپنا میش میلو لے کر نکل گئے۔
میں نے بیٹی کو نصیحت کی، “زندگی میں دوسروں کی مدد لو اور خود بھی دوسروں کی مدد کرو۔ سوال کرنے اور مدد مانگنے سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ زبان کی طاقت کو سمجھو، یہ زندگی کے بہت سے مسائل حل کر سکتی ہے۔”