پوسٹ کلیئرنس آڈٹ نے دھوکہ دہی سے سولر پینل کی درآمدات کے ذریعے 106ارب روپے پر مشتمل منی لانڈرنگ سکینڈل کا پردہ فاش کیا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر دو بھائیوں کی سربراہی میں آپریشن میں پشاور اور لاہور میں سات شیل کمپنیوں کے جدید ترین نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے اسکینڈل تیار کیاگیا۔پی سی اے کے مطابق مجرموں نے سولر پینل کی قیمتوں میں 500فیصد تک اضافہ کیا، پینلز کو 0.35-0.70ڈالر فی واٹ کے حساب سے درآمد کیا جس کی اصل قیمت چین میں صرف 0.15 ڈالر فی واٹ تھی۔ سکیم میں مختلف کمرشل بینکوں میں 42ارب روپے کی نقد رقم جمع کرانا شامل تھا تاکہ رقم کی غیر قانونی ماخذ کو ظاہر کیا جا سکے۔
ایف آئی آر کے مطابق ایک کمپنی جو ایس ای سی پی کیساتھ رجسٹرڈ بھی نہیں تھی، 2.5ارب روپے مالیت کے سولر پینلز درآمد کرنے میں کامیاب رہی، اس کے باوجود اس کے ڈمی مالک نے صرف ڈھائی لاکھ روپے سالانہ آمدنی ظاہر کی۔تحقیقات میں مزید انکشاف ہوا کہ سمگل شدہ فنڈز بالآخر چار چینی کمپنیوں کو منتقل کئے گئے جو ان مبینہ بھائیوں کی ملکیت بھی تھیں جس سے پاکستانی اور چینی آپریشنز کے درمیان براہ راست تعلق قائم ہوا۔سکیم نے سولر پینل کی درآمدات کیلئے ڈیوٹی فری نظام کا فائدہ اٹھایا، بینک مبینہ طور پر قابل اعتراض مالی حیثیت رکھنے والی کمپنیوں سے لین دین کی جانچ پڑتال کرنے میں ناکام رہے۔
ذرائع کے مطابق ہر درآمدی کنسائنمنٹ کے لیے، رقم دو بار بیرون ملک منتقل کی گئی – ایک بار ہنڈی کے ذریعے اور ایک بار بینکنگ چینل کے ذریعے اور ملک کو اوور انوائسنگ کے ذریعے سنگین مالیاتی جھٹکا لگا۔ڈی جی پی سی اے چوہدری ذوالفقار علی اور ڈائریکٹر پی سی اے ساتھ شیراز احمد کی سربراہی میں ہونے والی تحقیقات نے اس اسکیم کو بے نقاب کرنے کے لیے کسٹم، سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور بینک ریکارڈ کی کراس ریفرنسنگ کا استعمال کیا اور اب پی سی اے ساتھ نے ایک کے خلاف چار ایف آئی آر درج کرائی ہیں۔