
غزہ فلسطین کا ایک قدیم شہر ہے جو بحیرہ روم کے کنارے واقع ہے۔ اس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے اور یہ مختلف تہذیبوں، اقوام اور سلطنتوں کا گہوارہ رہا ہے۔ کنعانی دور میں یہاں انسانی آبادی موجود تھی اور یہ شہر قدیم فلستی قوم کا مرکز تھا جن کا ذکر مذہبی کتابوں میں بھی آتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ خطہ مصری، رومی، بازنطینی اور دیگر طاقتوں کے زیر تسلط رہا۔
ساتویں صدی عیسوی میں حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور میں غزہ مسلمانوں کے قبضے میں آیا اور پھر یہ شہر اسلامی خلافتوں کا حصہ بنا۔ عباسی، فاطمی، ایوبی اور عثمانی دور میں غزہ کو ایک اہم تجارتی، تعلیمی اور ثقافتی مرکز کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ یہاں اسلامی تعلیمات، علم و ادب، اور صوفی روایات کو خوب فروغ ملا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو برطانیہ نے فلسطین کا کنٹرول سنبھال لیا۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد لاکھوں فلسطینی مہاجرین کو جبری طور پر اپنے گھروں سے نکال دیا گیا اور بہت سے لوگ غزہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ 1948 سے 1967 تک غزہ مصر کے زیر انتظام رہا، مگر 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کر لیا۔
2005 میں اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ غزہ سے اپنی فوج اور آباد کار ہٹا رہا ہے، لیکن اس کے باوجود اسرائیل نے غزہ کی فضائی، زمینی اور بحری ناکہ بندی جاری رکھی۔ 2006 کے انتخابات میں فلسطینی جماعت حماس نے کامیابی حاصل کی اور 2007 سے غزہ پر اس کا مکمل انتظام ہے۔ اس کے بعد سے غزہ کئی مرتبہ شدید اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنا، جن میں ہزاروں شہری شہید اور زخمی ہوئے۔ بنیادی سہولیات جیسے پانی، بجلی، ادویات، اور خوراک کی شدید قلت نے انسانی بحران کو جنم دیا۔
آج غزہ دنیا کے ان چند علاقوں میں شمار ہوتا ہے جہاں زندگی نہایت مشکل اور غیر یقینی ہے۔ محدود وسائل، مسلسل حملے، اور سیاسی تناؤ کے باوجود غزہ کے لوگ اپنی شناخت، زمین، اور آزادی کے لیے پرعزم ہیں۔ ان کی جدوجہد صرف بقاء کی نہیں بلکہ ایک بہتر اور آزاد مستقبل کی امید کی علامت ہے۔