
کہتے ہیں کہ نطشے اک روز کسی چوراہے سے گزر رہا تھا تو اس نے اک کوچوان کو دیکھا جو اپنے گھوڑے پہ چابک برسا رہا تھا، گھوڑا اپنی جگہ پہ جما مسلسل چابک کھا رہا تھا۔ نطشے نرم دل آدمی تھا یہ منظر دیکھ نہ سکا، بھاگا اور گھوڑے سے جا کے لپٹ گیا تاکہ اسے چابک سے بچا سکے۔ نطشے گھوڑے سے لپٹا ہوا روتا جاتا اور کہتا جاتا کہ میں تمہیں سمجھ سکتا ہوں۔ اس واقعے نے نطشے کا دماغ الٹ دیا اور وہ اپنی وفات تک ایک پاگل خانے میں داخل رہا۔
میں جب بھی یہ واقعہ پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں نطشے بھی کیا ہی بیوقوف آدمی تھا، ایک جانور پہ تشدد برداشت نہ کر سکا اور پاگل خانے پہنچ گیا۔ اگر وہ ہمارے معاشرے میں پیدا ہو جاتا تو شاید قدرے بہادر آدمی ہوتا۔ وہ نہایت دلیری سے اپنے سامنے بم دھماکوں میں اڑتے انسانی اعضاء دیکھتا، معصوم بچوں کے لاشے دیکھتا، مریضوں کو بلکتے دیکھتا، بھوک سے مرتے لوگ دیکھتا، کم سن بچوں کا ریپ ہوتے اور ان کو قتل ہوتے دیکھتا، ادھ ننگے ٹھٹھرتے، کانپتے بدن دیکھتا اور نہایت سکون سے زندہ رہتا۔
میں سوچتی ہوں کہ سستا آٹا لینے کی کوشش میں کچلے جانے والے آدمی سے تو وہ گھوڑا ہی خوش قسمت نکلا جس پہ ہونے والے ظلم نے اپنے وقت کے بہترین دماغ کو اتنا دھچکا دیا کہ پھر وہ تا مرگ اس دھچکے سے باہر نہ آ سکا۔
یہاں لاٹ صاحبان کی گاڑی روکنے کے جرم میں چوکیداروں کو سیدھی گولی مار دی جاتی ہے، بہن کو تنگ کرنے والے امیر زادے کو منع کریں تو بے بس بھائی کو اڑا دیا جاتا ہے۔ یہاں آج بھی جاگیرداروں، وڈیروں اور نوابوں کے لیے غریب کی جان اور عزت مباح سمجھی جاتی ہے۔ اور اگر نطشے کبھی ہمارے ہسپتالوں کا چکر لگاتا تو شاید اس کا کلیجہ پھٹ جاتا، ایک بستر پہ دو مریض، جن میں سے ایک مر گیا ہو اور دوسرا مریض بالکل اس کے ساتھ لیٹا ہوا کیا محسوس کر رہا ہو گا شاید نطشے بھی کبھی سمجھ نہ سکے۔ یہاں بجلی کا بل ادا نہ ہونے کی وجہ سے کوئی پنکھے سے جھول رہا ہے تو کوئی گھر کا کرایہ ادا نہ ہونے کی وجہ سے پھندا گلے میں ڈال رہا ہے۔ کسی کی ماں دوا نہ ملنے کی وجہ سے بلکتی ہوئی موت کی منتظر ہے تو کسی کی بیٹی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے سر میں چاندی بھرے بیٹھی ہے۔ کسی نے باپ کو سالوں نیا لباس نہیں ملتا تو کسی کے پاس بیٹے کی فیس کے پیسے نہیں ہیں۔ کسی کے گھر میں ایک وقت کھانا پکتا ہے تو کوئی دو دو میل پیدل چل کے کام کی جگہ پہ پہنچتا ہے۔
یہاں ہر سیلاب متاثرہ خاندان کو بھوک، بیماری اور موت چاٹ رہی ہے، لیکن کوئی دماغ نہیں الٹ رہا۔
غریب کے فاقے پیٹ سے آنکھوں تک آن پہنچے اور سفید پوش، کفن پوش میں بدلنے لگا لیکن کسی کو بخار تک نہیں ہوا۔ حاکمان وقت ہوں یا امیر سے امیر ترین ہوتے ہوئے امراء، اڑھائی لاکھ کے جوتے پہن کے ننگے پاوٴں والے بچوں کے ساتھ تصویریں بنواتے اور کئی کئی دن کے فاقوں سے بے حال بچوں کو نمکو اور سلانٹی کھلاتے ہوئے بے نیاز لوگ، پانچ پانچ فٹ پانی سے گزر کے آنے والوں کو ایک پلیٹ بریانی کھلانے والے لوگ ہوں یا جہازوں میں بیٹھ کے پانی میں ڈوبتے لوگ دیکھنے والے بادشاہ ہوں، یہ تمام کے تمام اس پاگل خانے میں مرنے والے نرم دل نطشے پہ قربان کر دینے کو جی چاہتا ہے۔
کتنا بزدل آدمی تھا وہ جو حیوان کی تکلیف نہ دیکھ سکا اور کتنے بہادر ہیں ہم کہ انسان کی تکلیف کو محسوس نہیں کر نے بہادر سکتے۔
روٹی امیر شہر کے کتوں نے چھین لی
فاقہ غریب شہر کے بچوں میں بٹ گیا۔