قابل غور نکتہ یہ ہے کہ محمود غزنوی سے قبل محمد بن قاسم نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا لیکن پاکستان نے اپنے کسی میزائل کو محمد بن قاسم کا نام نہیں دیا۔ محمد بن قاسم کو بھی کچھ سندھی قومی پرست لٹیرا قرار دیتے ہیں لیکن خواجہ محمد آصف نے محمد بن قاسم کو لٹیرا نہیں کہا شاید اس لئے کہ وہ عرب تھے۔
آج کل افغانوں پر تنقید کا فیشن چل رہا ہے تو محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دیدیا گیا حالانکہ بھارتی تاریخ دان رومیلا تھاپڑ نے اپنی کتاب ’’سومناتھ‘‘ میں لکھا ہے کہ محمود غزنوی کی فوج میں بہت سے ہندو شامل تھے۔ سومناتھ کا دفاع کرنے والی راجہ بھیما کی فوج میں کئی اسماعیلی شامل تھے۔
رومیلا تھاپڑ کے بقول مندروں پر حملے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو راجہ بھی کرتے تھے جس کا مقصد اپنی طاقت کی دھاک بٹھانا ہوتا تھا۔
رومیلا تھاپڑ نے یہ بھی لکھا کہ بعض روایات کے مطابق محمود غزنوی کو اس حملے کی دعوت ایک صوفی بزرگ مسعود غازی نے دی تھی کیونکہ سومناتھ میں مسلمانوں پر بہت ظلم ہوتا تھا۔
روزانہ ایک مسلمان کو اس مندر کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا۔ ایک گجراتی مسلمان بیوہ کے اکلوتے بیٹے کو ہندو راجہ نے گرفتار کرلیا تھا اور یہی بیوہ اپنی فریاد اور مسعود غازی کا خط لے کر محمود غزنوی کے پاس غزنی پہنچی تھی۔
اگر یہ روایات درست ہیں تو مسلمان سومناتھ میں پہلے سے موجود تھے۔ محمود غزنوی بعد میں آیا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ محمود غزنوی اور محمد بن قاسم سے بہت پہلے عرب تاجروں کے ذریعہ اسلام ہندوستان میں پہنچ چکا تھا۔
محمد بن قاسم نے 712ء اور محمود غزنوی نے 1026ء میں سومناتھ پر حملہ کیا لیکن برصغیر پاک و ہند میں پہلی مسجد کیرالہ کے ضلع تھریسر کے علاقے چرامان میں 629ء میں قائم ہوئی۔ محمد اسحاق بھٹی صاحب کی کتاب ’’برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش‘‘ ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور نے شائع کی تھی۔
اس کتاب کے مطابق ہندوستان پر عرب مسلمانوں کی فوج کشی کا آغاز حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں ہوا۔ محمد اسحاق بھٹی صاحب کی تحقیق کے مطابق ہندوستان میں کل 25 صحابہ کرامؓ تشریف لائے۔ 12 حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں، پانچ حضرت عثمانؓ کے عہد میں اور تین حضرت علیؓ کے دور میں آئے اور پانچ بعد میں آئے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہ قرشیؓ نے گجرات اور کاٹھیاواڑ کا علاقہ فتح کیا جبکہ حضرت مجاشع بن مسعود سلمیؓ نے کابل فتح کیا تھا۔ ہماری نصابی کتب میں ان صحابہ کرامؓ کا ذکر نہیں ملتا۔
ذکر ملتا ہے تو محمد بن قاسم کا اور محمود غزنوی کا۔ محمود غزنوی جیسا بھی تھا لیکن اہل علم اور صوفیا کا قدر دان تھا۔ حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ بھی اس کے ہم عصر تھے اور محمود غزنوی ان کا بہت احترام کرتا تھا۔ ہجویر دراصل غزنی کا ایک علاقہ ہے۔ علی ہجویری ؒ محمود غزنوی کے بیٹے مسعود غزنوی کے دور میں لاہور تشریف لائے اور یہاں اسلام پھیلایا۔ ان کے والد عثمان علی ہجویریؒ اور والدہ کی قبریں غزنی میں ہیں۔
عرض یہ کرنا ہے کہ افغانستان سے صرف سلطان محمود غزنوی نہیں آیا تھا حضرت علی ہجویریؒ بھی آئے تھے اسلئے افغانوں سے نفرت اچھی بات نہیں۔ اگر کسی کو افغان بہت برے لگتے ہیں تو براہ کرم اپنے میزائلوں کے نام بدل دیں۔
اگر وزیر دفاع کی سلطان محمود غزنوی پر تنقید کا حالیہ پاک افغان کشیدگی سے کوئی تعلق نہیں تو ان کے بیان کی ابھی تک حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی وضاحت کیوں نہیں آئی؟۔