
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے قرض پروگرام کی شرائط میں مزید سختی پیدا کر دی ہے۔ تازہ ترین اسٹاف لیول رپورٹ کے مطابق، پاکستان کو 11 نئی شرائط پوری کرنا ہوں گی، جن میں وفاقی بجٹ کا حجم 17.6 ٹریلین روپے تک لے جانا، توانائی کے شعبے میں اضافی سرچارج عائد کرنا، اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر عائد پابندیاں ختم کرنا شامل ہیں۔
علاقائی کشیدگی اور معاشی اثرات
رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی میں اضافہ ہوا تو اس سے نہ صرف معیشت بلکہ جاری اصلاحاتی اقدامات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ حالیہ تناؤ کے باوجود مالیاتی منڈیوں پر فوری اثر محدود رہا اور پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں استحکام نظر آیا ہے، لیکن خطرات بدستور موجود ہیں۔
دفاعی اور ترقیاتی اخراجات
آئی ایم ایف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگلے مالی سال کے لیے پاکستان کا دفاعی بجٹ 2.414 ٹریلین روپے رکھا گیا ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ ہے۔ البتہ، بھارت کے ممکنہ اقدامات کے پیش نظر حکومت 2.5 ٹریلین روپے کا بجٹ مختص کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔
وفاقی بجٹ کے لیے 17.6 ٹریلین روپے کا مجموعی حجم تجویز کیا گیا ہے، جس میں سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 1.07 ٹریلین روپے، سود کی ادائیگیوں کے لیے 8.7 ٹریلین روپے، بنیادی بجٹ سرپلس کے لیے 2.1 ٹریلین روپے، اور مجموعی خسارے کے لیے 6.6 ٹریلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔
زرعی انکم ٹیکس اور صوبائی اقدامات
آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ جون 2025 تک صوبے ایک نیا زرعی انکم ٹیکس نظام متعارف کرائیں۔ اس نظام میں ٹیکس دہندگان کی شناخت، رجسٹریشن، اور ریٹرن فائلنگ کے لیے ایک جامع ڈیجیٹل پلیٹ فارم شامل ہوگا۔
توانائی کے نرخ اور قانونی اصلاحات
توانائی کے شعبے میں چار نئی شرائط رکھی گئی ہیں، جن کے تحت بجلی اور گیس کے نرخوں پر ہر سال لاگت کے مطابق نظرثانی لازمی قرار دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جولائی 2025 سے بجلی کے نرخوں میں تبدیلی اور فروری 2026 سے پہلے گیس ٹیرف میں ایڈجسٹمنٹ کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی شرط بھی شامل ہے۔
حکومت کو “کیپٹو پاور لیوی” کو مستقل قانون بنانے اور بجلی صارفین پر 3.21 روپے فی یونٹ سرچارج ختم کرنے کے لیے بھی قانون سازی کرنا ہوگی، تاکہ گردشی قرضوں پر قابو پایا جا سکے۔
درآمدی پابندیاں اور مسابقت
آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ حکومت تین سال سے زائد پرانی استعمال شدہ گاڑیوں کی تجارتی درآمد پر عائد پابندیاں مکمل طور پر ختم کرے۔ ادارے کا مؤقف ہے کہ اس اقدام سے مارکیٹ میں مسابقت بڑھے گی اور صارفین کو مزید آپشنز میسر آئیں گے۔
گورننس اور مالیاتی اصلاحات
آئی ایم ایف نے زور دیا ہے کہ گورننس کی بہتری کے لیے کی گئی جانچ پڑتال کی بنیاد پر حکومت ایک واضح ایکشن پلان مرتب کرے۔ اس کے علاوہ 2027 سے 2028 کے بعد کے مالیاتی اہداف کے لیے بھی ایک تفصیلی روڈمیپ تیار کرنا ہوگا۔
حکومت کو 2035 تک تمام خصوصی صنعتی زونز اور اسپیشل ٹیکنالوجی زونز سے حاصل ٹیکس چھوٹ مرحلہ وار ختم کرنے کا منصوبہ بھی بنانا ہوگا۔
اب تک کی پیش رفت
، 7 ارب ڈالر کے قرض کے لیے پاکستان اب تک 50 شرائط پر عملدرآمد کر چکا ہے۔ اگرچہ کچھ شعبوں جیسے زرمبادلہ ذخائر اور نئے ٹیکس دہندگان کی رجسٹریشن میں پیش رفت ہوئی ہے، لیکن صحت، تعلیم، تاجر دوست ٹیکس اسکیم، اور زرعی انکم ٹیکس پر قانون سازی سمیت متعدد شعبے اب بھی مطلوبہ اہداف سے پیچھے ہیں۔
بینکنگ اصلاحات، مؤثر مانیٹری پالیسی، اور سول سرونٹس و مالیاتی قوانین میں ترامیم جیسے معاملات تاخیر کا شکار ہیں، جن پر پیش رفت اب بھی درکار ہے۔