کہانی کا دوسرا حصہ:
مکھن سائیں قبر کے اندر پرسکون لیٹا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ تھی، ہاتھوں میں موٹے دانوں کی تسبیح، اور پیروں میں تازہ موتیے کے پھولوں کا ہار۔ قبر دس فٹ گہری تھی اور روشنی اتنی تھی کہ اندر موجود ہر چیز واضح نظر آ رہی تھی۔ پاس ہی ایک مٹی کا گھڑا، پانی کا پیالہ، اور چند سوکھی روٹیاں رکھی ہوئی تھیں۔
انسپکٹر اور سپاہی قبر میں جھانک کر حیرت زدہ رہ گئے۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ تیس دن سے ایک قبر میں بند انسان اتنا تروتازہ ہو سکتا ہے۔ قبر کی گرمی زندہ تو کیا، مردے کو بھی ایک ہی دن میں پگھلا دیتی ہے، مگر یہ منظر ان کی سمجھ سے بالاتر تھا۔
انسپکٹر نے اپنے دل کی پریشانی کو چھپاتے ہوئے کہا، “مکھن سائیں، باہر نکلو!” لیکن اس کی آواز کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے دوبارہ پکارا، پھر تیسری بار، مگر مکھن سائیں کی حالت جوں کی توں رہی۔
“مولوی، تم نیچے جا کر اسے اٹھاؤ،” انسپکٹر نے باریش حوالدار کو حکم دیا۔ پہلے تو حوالدار نے انسپکٹر کو عجیب نظروں سے دیکھا، مگر پھر حکم کی تعمیل کرتے ہوئے قبر میں اتر گیا۔
جیسے ہی حوالدار قبر کے اندر اترا، قریب کے برگد کے درخت پر ہلچل مچ گئی۔ ان گنت پرندے شاخوں سے اڑ کر بے قراری سے چہچہانے لگے اور درخت کے گرد چکر کاٹنے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر حوالدار تھوڑا سہم گیا، لیکن ہمت کرکے اس نے مکھن سائیں کو جگانے کے لیے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اسی لمحے برگد سے ایک سانپ نیچے اترا اور مکھن سائیں کے سینے پر بیٹھ گیا۔
حوالدار کا دل کانپ اٹھا۔ وہ باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگا اور چیخ کر بولا، “صاحب جی، مجھے نکالیں! یہاں سانپ ہے!” انسپکٹر نے فوراً سپاہیوں کی مدد سے اسے باہر نکالا۔
ملنگ جو یہ سب منظر دیکھ رہے تھے، نعرے بلند کرنے لگے۔ “ہم نے کہا تھا، سرکار کو مت چھیڑنا!” ایک ملنگ نے کہا۔ انسپکٹر کو غصہ آیا اور اس نے خود قبر میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ ڈنڈا ہاتھ میں لیے وہ نیچے اترا اور مکھن سائیں کے پاؤں کو جھنجھوڑا۔
اسی وقت مکھن سائیں نے آنکھیں کھولیں۔ ان کے چہرے پر جلال تھا۔ ایک ہی جھٹکے میں انہوں نے سینے پر بیٹھے سانپ کو پکڑ لیا اور انسپکٹر کی جانب پھینکے جانے والے ڈنڈے کو روکا۔
“تجھے شرم نہیں آئی؟ ہمیں سوتے سے جگا دیا!” مکھن سائیں کی گونجدار آواز سن کر انسپکٹر گھبرا گیا۔ مکھن سائیں نے مزید کہا، “ہم نے اپنے خالق کے طوق پہن رکھے ہیں۔ تیرے قانون کی ہتھکڑیاں ہمارے لیے کچھ نہیں!”
انسپکٹر کی حالت غیر ہو گئی۔ اس نے عاجزی سے معافی مانگی۔ مکھن سائیں نے ایک بھاری انگوٹھی اتاری اور انسپکٹر کو دی۔ “یہ لے، یہ ملنگ کا تحفہ ہے۔ ہمارا مالک تجھے درجات عطا کرے گا۔”
انسپکٹر مرید بن کر واپس گیا اور مکھن سائیں کے دربار کا گرویدہ ہو گیا۔ علاقے میں اس کی ترقی کو مکھن سائیں کی دعاؤں کا نتیجہ سمجھا جانے لگا۔
یہ کہانی ایک پراسرار شخصیت اور اس کے اثرات پر مبنی ہے، جسے روایت اور حقیقت کے سنگم پر بیان کیا گیا ہے۔
“یہ لو بادشاہو، تم تھوڑی لینا چاہتے ہو یا ساری؟” اس نے افیون میری طرف بڑھائی۔
میں نے اس بے شرم آدمی کو گھورا، جو میرے سامنے بدمعاشی سے مسکرا رہا تھا، جیسے اسے کسی بات کا کوئی احساس نہ ہو۔
“یہ تمہارے پاس تھی تو مجھے کیوں نہیں دی؟” میں نے لالو قصائی سے افیون لیتے ہوئے غصے میں کہا۔ وہ کچھ نہیں بولا، مگر اس کی پریشانی ظاہر تھی کہ وہ مجھے یہ افیون دینے پر مجبور تھا۔
“ارے، کسی شریف آدمی کو زیادہ تنگ نہ کیا کر،” مکھن سائیں نے لالو کو بلایا، اور مجھے گھوم کر مسکرا کر کہا، “تمہیں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے؟” میں مکھن سائیں کی باتوں میں الجھ کر رہ گیا تھا۔ وہ اسے تسلی دے رہا تھا یا مجھے چھیڑ رہا تھا؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا، مگر اس کا لہجہ کچھ ایسا تھا جیسے وہ میرے حالات کے بارے میں کچھ جانتا ہو۔ وہ بہت مشہور تھا کہ دلوں کی باتیں سمجھ لیتا ہے۔
“اب جا، اسے واپس لے جا،” مکھن سائیں نے کہا، اور لالو قصائی نے سر جھکایا اور احترام سے مکھن سائیں کے قدموں میں جھک کر افیون واپس کر دی۔ مکھن سائیں نے مجھے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا، “میاں! جب کبھی دل بے چین ہو اور کچھ سمجھ نہ آئے، تو میرے دروازے پر آ جانا، دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔” میں بے اختیار سر ہلا کر اس کی بات مان گیا۔
“اور ہاں، اپنے باباجی کو میرا سلام کہنا،” مکھن سائیں نے کہا۔ میری آنکھیں چمک اُٹھیں اور فوراً پسینے میں ڈوب گیا۔ “مکھن سائیں کو باباجی کے بارے میں کیسے پتا؟”
میرے ذہن میں کئی سوالات ابھرنے لگے، اور مجھے احساس ہوا کہ مکھن سائیں جو کچھ بھی کر رہا تھا، اس میں کچھ خاص بات تھی۔ میں نے بے اختیار پوچھا، “کیا آپ باباجی سرکار کو جانتے ہیں؟”
مکھن سائیں ہنستے ہوئے بولا، “تمہارے باباجی سرکار مجھے بھی جانتے ہیں، پتر جی۔” اس کے انداز میں کچھ تھا جو مجھے پریشان کر رہا تھا، جیسے وہ کچھ اور کہنا چاہ رہا ہو۔
وقت کافی گزر چکا تھا اور مجھے واپس جانا تھا، لہذا میں لالو سے کہا کہ ہم چلیں، اور مکھن سائیں اپنے ڈیرے کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس کا ایک پیروکار پیچھے رہ گیا، جس نے لالو سے نذرانہ طلب کیا۔
“نذرانہ…” اس نے ہاتھ بڑھایا۔ لالو نے مجھے ایک نظر دیکھا اور پھر افیون کی کچھ ڈلیاں نکال کر پیروکار کو دے دیں۔ وہ افیون سونگھ کر جھومنے لگا اور “حق سائیں سرکار مکھن سائیں” کا نعرہ لگاتا ہوا اپنے مرشد کے پیچھے چل دیا۔
یہ سب دیکھ کر میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ لالو نے مجھے کئی گھنٹے تک افیون کی تلاش میں رکھا، مگر اب وہ اس پیروکار کو افیون دے رہا تھا، جیسے کچھ بھی نہ ہو۔
اسی دوران دو سپاہی گشت کرتے ہوئے آ گئے۔ ایک نے فوراً لالو کو پہچان لیا اور کہا، “اوے، لالو قصائی! پکڑ لیا ہے تجھے!” میں نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کرنا شروع کیا، مگر دوسرے سپاہی نے میرے چابی چھین لی۔
“کہاں جا رہے ہو؟” اس نے کہا، اور میری حالت خراب ہو گئی۔ میرے پاس افیون تھی اور اگر پکڑا گیا تو مصیبت میں پھنس سکتا تھا۔
“کیا مسئلہ ہے؟” میں نے دل پر جرات باندھ کر پوچھا۔ ایک سپاہی نے میرے صحافتی کارڈ کو دیکھا اور پھر بولا، “تم اس لالو کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟” دوسرے سپاہی نے لالو کی تلاشی لی اور کہا، “یعنی، لالو کے پاس آج کوئی افیون نہیں ہے؟ عجیب بات ہے۔”
میں نے لالو کو دیکھا، وہ مسکرا رہا تھا، جیسے وہ کھیل کھیل رہا ہو۔ “صحافی تو بادشاہ ہوتے ہیں، اس میں راجو ڈوگر، مکھن سرکار، اور آپ جیسے لوگ… قانون بھی تمہارا، حکمرانی بھی تمہاری، ہم تو بس مزدور ہیں،” لالو نے مذاق میں کہا۔
سپاہی ہنستے ہوئے چل پڑے، “کل آ کر بچھڑے کی ران لے جانا۔”
میں جلدی سے ملک نصیر احمد کی حویلی پہنچا، جہاں نصیر اپنے پیر صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا۔ پیر صاحب چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور نصیر ان کے سر میں تیل مالش کر رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی پیر صاحب اٹھے اور ہنستے ہوئے بولے، “آؤ شہزادے، کیسے ہو؟”
“سرکار، مرتے مرتے بچا ہوں!” میں نے مصنوعی خفگی کا اظہار کیا۔ “پولیس سے بار بار ٹکراؤ ہو رہا تھا، مگر اللہ کی کرم سے بچ گیا۔”
پیر صاحب نے فوراً کہا، “دروازے بند کر دو، پردے گرا دو، باباجی آ گئے ہیں!” پھر وہ نصیر کی والدہ کی طرف مڑ کر کہا، “ماں جی، اگربتیاں نہیں جلائیں؟”
“ہائے، میں بھول گئی!” وہ اٹھی، اور ان کی بیٹی زلیخا نے چادر درست کرتے ہوئے کہا، “ماں، میں اگربتیاں لے آتی ہوں۔”
پیر صاحب نے نصیر سے کہا، “دروازے بند کر دو، اور درود شریف پڑھنا شروع کر دو۔ باباجی سرکار کا آنا ایک خاص موقع ہوتا ہے۔”
جب سب کچھ تیار ہو گیا اور ہم درود پڑھنے لگے، تو میں نے باباجی کی موجودگی کو محسوس کیا۔ ایک گہری اور بھاری سانس کے ساتھ، باباجی کا وجود میرے آس پاس محسوس ہونے لگا۔ وہ میرے قریب آ کر میری کمر پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگے۔
“شاہد پتر، لالو بڑا کمینہ نکلا!” باباجی نے ہنستے ہوئے کہا۔
غازی نے قہقہہ مارا اور کہا، “اگر آج مکھن سائیں نہ آتے تو یہ تو جیل میں ہوتے!”
میں نے کہا، “باباجی، مجھے کمر تک خوف محسوس ہو رہا ہے۔ آپ نے مجھے اتنے کڑے امتحان میں ڈال دیا تھا۔”
باباجی مسکرا کر بولے، “ہماری محبت خود ایک امتحان ہے، پتر۔” پھر غازی نے کہا، “لالو نے بڑی چالاکی دکھائی۔ وہ آپ کو اپنے دھندے کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا، اور آپ کی وجہ سے پولیس نے اسے چھوڑ دیا۔”
میں نے غصے سے کہا، “لالو نے مجھے اپنے دھندے میں شامل کیا، باباجی! اگر میں پکڑا جاتا تو آپ جانتے ہیں کیا ہوتا؟”
باباجی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، “پتر، ہم اپنے چاہنے والوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتے۔ غازی نے پولیس کی عقل مار دی، ورنہ وہ لالو جیسے آدمی کو کیسے چھوڑ دیتے؟”
“باباجی، کل میرا انگریزی کا پرچہ ہے۔ مجھے گھر جانا ہے، ابو ناراض ہوں گے۔” میں نے کہا۔
باباجی مسکرا کر بولے، “اللہ خیر کرے گا۔ بس سورہ یاسین پڑھتے رہنا۔ کل امتحان میں تمہیں کامیابی ملے گی۔”
پیر صاحب نے کہا، “رات یہیں رہ جا، صبح سویرے شہر جانا۔”
“نہیں، باباجی نے کہا، “اسے جانے دو۔” غازی، تم اس کے ساتھ جاؤ، اور اسے گھر تک چھوڑ آؤ، پھر واپس آنا۔”
“فاطمہ بی بی کی دوا بھی تیار کرنی ہے، نصیر پتر، تم سامان بندوبست کر لو، کل پاکپتن جانا ہے، اس لئے تم یہ کام خود کر لینا۔”
“باباجی، فاطمہ بی بی کو اولاد ہو گی؟” میں نے ڈرتے ہوئے سوال کیا۔
باباجی نے مسکرا کر کہا، “اللہ کی مرضی ہے، پتر۔”