ساتویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
میرے سر میں غصے کی شدت سے درد ہو رہا تھا۔ رضیہ خاموش تھی، اس کی نظریں مجھ سے بچ رہی تھیں، اور میری لاڈلی بیٹی زلیخا میرے سینے سے لگی ہوئی تھی، بے قابو ہو کر روتے جا رہی تھی۔ میں نے غصے سے پیر ریاض شاہ کی طرف دیکھا، جس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو چکا تھا۔ اس کی آنکھوں میں میرے لیے نفرت کی جھرمٹ لہر رہی تھی۔
“رضیہ کیوں نہیں بولتی؟” میں تقریباً چیخ کر بولا، “کیوں نہیں بتاتی، زلیخا کے ساتھ کیا ہوا ہے؟”
“کچھ نہیں ہوا ملک صاحب، اللہ کی قسم سب کچھ ٹھیک ہے۔ بچی تھوڑی گھبرا گئی ہے، کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہوئی۔” رضیہ کی آواز لرز رہی تھی، اور مجھے محسوس ہوا کہ وہ کچھ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ اس کا معمول نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ مجھ سے سچ بولتی تھی، لیکن آج اس کے چہرے پر ایک گہری چھپی ہوئی بات تھی۔
“اٹھ بچی، اپنے والد کو پریشان نہ کر!” رضیہ زلیخا کو میرے سے الگ کرتے ہوئے اس کو اپنے شانے سے لگا رہی تھی، لیکن زلیخا اپنی ماں کے ساتھ چپکنے سے گریزاں تھی، جیسے اسے وہاں سکون نہ مل رہا ہو۔
“رضیہ، تو مجھ سے کچھ چھپا رہی ہے۔ اگر تو اب خاموش رہی تو اللہ کی قسم، میں اس حویلی کو خون میں نہلا دوں گا۔” میں نے زلیخا کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا، “زلیخا، تمہاری قسم کھا کر کہتا ہوں، میں کسی کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔”
رضیہ کا چہرہ فق ہو گیا، زلیخا میرے جلال کو دیکھ کر خاموش ہو گئی، اور پھر جیسے وہ سنبھلنے لگی، رضیہ مجھے دیکھنے لگی۔ اچانک رضیہ نے چلاتے ہوئے کہا، “لو، سب سے پہلے مجھے مار ڈالو ملک صاحب، میں بدبخت عورت، اپنی بیٹی کی پریشانی میں مرے جا رہی ہوں۔ میرے پاگل پن کی وجہ سے ہی پیر صاحب یہاں آئے ہیں۔ آپ جس بات پر شک کر رہے ہیں، وہ بغیر تصدیق کے غصے میں آ کر کہتے جا رہے ہیں۔ آپ پیر صاحب کا غصہ کیوں پالتے جا رہے ہیں؟ مجھ پر غصہ نکالیے، لیکن مجھے ماریں!”
زلیخا نے یہ سنا تو وہ سنبھل گئی اور ماں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولی، “اماں، خدا کے واسطے چپ ہو جا، جو کرنا تھا کر لیا۔ اب تو تیرے دل کو تسلی ہو گئی ہے کہ مجھ پر کوئی جن نہیں آیا، میں خود ہی ایک جننی ہوں!”
“کیا؟ تم کیا کہہ رہی ہو؟” رضیہ، کولہوں پر ہاتھ رکھ کر زلیخا پر برس پڑی، “تو یہ کہنا چاہتی ہے کہ میں نے تیری عزت برباد کر دی؟ تیری زبان جل جائے!”
“ماں، عورت کی عزت بہت قیمتی چیز ہوتی ہے۔ کوئی نامحرم بھی اس کو چھو لے تو ماں کی حیا کو موت آ جاتی ہے۔ عورت بہت پاکیزہ چیز ہے، ماں، میں ہمیشہ کہتی آئی ہوں کہ مجھ پر کسی جن کا سایہ نہیں ہے، لیکن تجھے اپنی بیٹی کے دکھ کا وہم کھائے جا رہا ہے۔ اللہ کا شکر ہے، ماں، میں بچ گئی ہوں، اور جب بے ہوش بھی تھی، میں جاگ رہی تھی۔ تیرے بابا جی میرے پاس تھے، ماں، اور مجھے ایک شرمناک سبق دے رہے تھے۔”
“بس کر دے، بس کر دے، زلیخا!” رضیہ چیخنے لگی، “اب تو بابا جی پر الزام لگا رہی ہے!”
“رضیہ، تم عقیدت میں اندھی ہو گئی ہو، تمہیں اپنی بیٹی کی بات پر یقین کیوں نہیں آ رہا؟” میں نے ضبط کرتے ہوئے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
“آپ دونوں پاگل ہو گئے ہیں۔ اندھی نہیں ہوئی ہوں ملک صاحب! آپ ایک بزرگ ہستی پر الزام لگا کر ان کو غصے میں ڈال رہے ہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ اگر پیر صاحب کو غصہ آ گیا تو یہاں قیامت آ جائے گی!” رضیہ نے غصے میں کہا۔
“شاہد بیٹا، یہ عورت بھی عجیب مخلوق ہے۔ تیری چاچی جو کبھی میرے سامنے نیچی آواز میں بات نہیں کرتی تھی، پیر ریاض شاہ کی وجہ سے مجھ پر دھاڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اس نے کوئی اوچھی حرکت کی ہے۔ تیرا دوست نصیر بچہ ہے، وہ مرد کی آنکھوں میں تیرتے شیطانی ارادوں کو نہیں دیکھ سکتا۔ مگر میں ریاض شاہ کی آنکھوں میں ابلتی ہوئی ہوس کو صاف دیکھ رہا تھا۔ جب ہم دونوں جھگڑنے لگے تو پیر ریاض شاہ غصے سے کھولتا رہا تھا۔ میں نے رضیہ سے صاف کہہ دیا کہ اپنے پیر صاحب سے کہہ دے کہ وہ فوراً میری حویلی چھوڑ کر جائے، ورنہ میں اسے نکال دوں گا۔”
“یہ نہیں ہو سکتا!” رضیہ نے بے شرمی سے کہا، “میں پیر صاحب کی بے عزتی نہیں کر سکتی۔ وہ یہیں رہیں گے، اور اگر انہیں جانا ہے تو صبح کی روشنی میں جائیں گے۔”
“جو کسی کی عزت کا خیال نہیں رکھتا، اس کی اپنی عزت نہیں ہوتی۔ رضیہ، اسے کہہ دو، ابھی فوراً چلا جائے، ورنہ میں نوکروں سے کہہ کر نکالوا دوں گا!” میں غصے میں بولا۔
“ملک صاحب، ہوش میں آئیں!” پیر ریاض شاہ نے گرجدار آواز میں کہا، “میں آپ کا لحاظ کر رہا ہوں، لیکن آپ مجھے بے عزت کرتے جا رہے ہیں۔ آپ نے ابھی تک میرا صبر دیکھا ہے، غصہ نہیں۔ میں خود یہاں ایک منٹ نہیں رہنا چاہتا۔ میں جا رہا ہوں، لیکن آپ کو ایک بات کہے دیتا ہوں، آپ جھک کر مجھے بلانے کے لیے آئیں گے، منتیں کریں گے، میرے قدموں میں گریں گے، لیکن میں نہیں آؤں گا۔”
اس کی باتوں نے مجھے بہت غصہ دلایا، مگر اس وقت میں نے خود کو قابو میں رکھا۔ رضیہ اس کے قدموں میں گر گئی تھی، یہ دیکھ کر مجھے شدید دھچکا لگا۔ وہ پیر ریاض شاہ سے اس طرح گڑگڑا رہی تھی کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
“شاہ صاحب، خدا کے واسطے ایسا نہ کریں، میں مر جاؤں گی! ملک صاحب کے دماغ پر غصہ طاری ہے، آپ ہی سمجھیں، ناراض ہو کر نہ جائیں!” وہ ایک دم اس کی قدموں میں گر کر رو رہی تھی۔
میں آگے بڑھا اور رضیہ کا بازو پکڑ کر اسے اٹھانے کی کوشش کی، “حیا کر رضیہ، تو اس گندے پیر کے قدموں میں گر کر اس کی عزت بڑھا رہی ہے؟”
“ملک صاحب!” پیر ریاض شاہ نے زخمی بھینسے کی طرح بولا، اس کے غصے سے اس کی آنکھوں میں آگ لگی ہوئی تھی اور اس کا پورا بدن لرز رہا تھا، “حد کر دی آپ نے، اب بس، کچھ نہیں کہنا!”
اس لمحے مجھے اس کی شخصیت کا رعب محسوس ہوا، اور میری زبان گنگ ہو گئی۔ پھر میں نے کہا، “اوئے، تم کیا کر لو گے؟” یہ کہہ کر میں نے اپنے نوکروں کو آواز دی، “کاموں، کرمے، ادھر آؤ!”
رضیہ نے پیر ریاض شاہ کی طرف لپک کر اس کے قدموں میں گر کر اس کی درخواست کی، “شاہ صاحب، خدا کے واسطے ایسا نہ کریں، میں مر جاؤں گی، ملک صاحب کے دماغ میں غصہ طاری ہے، آپ ہی سمجھ لیں۔”
یہ دیکھ کر زلیخا اچانک ایک کربناک چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی۔ اس کے منہ سے سفید جھاگ بہنے لگے، اور وہ فرش پر گر کر بے ہوش ہو گئی۔ میں فوراً اس کے قریب پہنچا، لیکن اس کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔ رضیہ اس کے سر کو اپنی گود میں رکھ کر دہائیاں دینے لگی، “شاہ صاحب، خدا کے واسطے کچھ کریں، بچی کو سانس نہیں آ رہی!”
اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتا، پورے گھر میں ایک بھونچال آ گیا۔ باہر سے زوردار آوازیں آنے لگیں، اور حویلی میں ہر طرف کھڑکنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میرے پالتو کتے خوفزدہ ہو کر بھونکنے لگے، اور ایسا لگنے لگا جیسے کوئی زلزلہ آ گیا ہو۔
میرے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ میں نے ریاض شاہ کے گریبان کو مزید پکڑ لیا اور پوچھا، “سچ سچ بتا، تو نے میری بچی کے ساتھ کیا کیا؟ اسے کیا دیا تھا؟”
اس سے قبل کہ وہ جواب دیتا، اچانک کمرے کی روشنی بند ہو گئی۔ باہر سے آنے والی روشنی سے کمرہ مدھم سا روشن تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ اور سمجھ پاتا، بیرونی دروازے سے ایک زوردار آواز آئی اور چیزیں گرنے لگیں۔