
پانچویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
بابا تیلے شاہ کا معاملہ میرے لیے ایک گہری پہیلی بن گیا تھا۔ میں نہ کوئی مشہور شخصیت تھا اور نہ ہی کوئی ایسا حوالہ رکھتا تھا کہ کسی کو میری ملاقات کی تمنا ہوتی۔ بابا تیلے شاہ کا یہ کہنا کہ وہ خاص طور پر میرا انتظار کر رہا تھا، مجھے حیران کر گیا۔ میرے ذہن میں سوالات گردش کرنے لگے کہ یہ کس قسم کا ڈرامہ تھا جس کا وہ ذکر کر رہا تھا؟ کیا غازی کا منڈی میں جا کر پھل کھانا ایک ڈرامہ تھا؟ یا بابا تیلے شاہ کا نور بخش کے بدن میں قید کر کے غازی کو مارنا؟ اگر یہ سب ایک ڈرامہ تھا، تو غازی کیسے اس کا حصہ بن گیا؟
میں اپنی الجھن میں مبتلا تھا جب بابا تیلے شاہ نے مجھے مسکراتے ہوئے کہا، ”پڑ گئے نا سوچ میں؟ بھول بھلیوں میں کھو گئے ہو۔“
”جی سرکار، میں سمجھ نہیں پایا کہ آپ کس ڈرامے کی بات کر رہے ہیں۔“ میں نے اپنی پریشانی ظاہر کی۔
بابا تیلے شاہ کے چہرے پر تلخی کا سایہ لہرایا، ”ہم ڈھونگی ہیں، میاں۔ دنیا کے سامنے اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم سب ایک تنکے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہوا کا جھونکا آئے، اور تنکا یہاں سے وہاں اڑ جاتا ہے۔“
میں نے ہنستے ہوئے کہا، ”لیکن بابا، جب یہی تنکا کسی کی آنکھ میں پڑ جائے تو اس کی وقعت کا پتہ چلتا ہے۔“
بابا نے قہقہہ لگایا، ”او میاں، تم سب تیلے ہو! ایک دوسرے کی آنکھ میں جا گرتے ہو، اور ایک دوسرے کی قدر و قیمت کو سمجھ نہیں پاتے۔ میرے رب نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، لیکن انسان اپنی حقیقت بھول گیا۔“
بابا تیلے شاہ کے الفاظ میری سمجھ میں آنے لگے، لیکن میں پھر بھی سیدھا جواب چاہتا تھا۔ ”بابا، آپ کس ڈرامے کی بات کر رہے تھے، اور آپ کو میرا انتظار کیوں تھا؟“
بابا نے افسردہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ”تم بڑے بے صبرے ہو۔ کچھ دیر بیٹھ جاؤ، پھر سب سمجھ جاؤ گے۔“
تھوڑی دیر بعد بابا نے مجھ سے پوچھا، ”پیسے ہیں تیرے پاس؟ لا، مجھے آئس کریم کھانی ہے۔“
میں نے اپنی جیب سے پچاس روپے نکال کر بابا کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔ وہ کچھ لمحے نوٹ کو گھورتے رہے، پھر مسکرا کر کہا، ”رکھ لے اپنے پیسے۔ میرا دل تو پہلے ہی ٹھنڈا ہے۔ یہ آئس کریم ان کے لیے ہے جو اندر سے جل رہے ہیں۔“
بابا کی باتوں میں غازی کا ذکر بار بار آتا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ غازی منڈی میں شرارت نہیں، بلکہ چوری کرتا تھا۔ جب بابا نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا تو مجھے بلانے کی خواہش کی۔
بابا تیلے شاہ کا فلسفہ گہرا اور پراسرار تھا۔ وہ کہتے تھے کہ جنات اور انسانوں کی دنیا الگ ہیں، لیکن کبھی کبھار ان کے راستے ٹکرا جاتے ہیں۔ انہوں نے مجھے خبردار کیا کہ غازی جیسے افراد یا مخلوقات سے زیادہ قریب نہ جاؤں، ورنہ نقصان میرا ہوگا۔
بابا نے کہا، ”جنات علم کے پیاسے ہوتے ہیں، لیکن اگر وہ علم کو غلط طریقے سے استعمال کریں تو وہ انسانوں کے لیے خطرناک بن جاتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ ان سے فاصلہ رکھا ہے۔“
ان کی باتوں نے میرے اندر مزید سوالات پیدا کر دیے۔ میں سوچنے لگا کہ بابا تیلے شاہ نے یہ علم اور فلسفہ کہاں سے پایا۔ لیکن ان کی کٹیا میں کوئی ایسا اشارہ نہیں تھا جو انہیں روایتی عبادت گزار ثابت کرتا۔ صفائی نہ ہونے کے باوجود ان کے اندر ایک روحانی دنیا آباد تھی۔
جب میں اپنی سوچوں میں گم تھا، بابا نے اچانک کہا، ”کیا سوچ رہے ہو، میاں؟“
میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا، ”بابا، آپ کے بھید جاننا چاہتا ہوں۔“
بابا مسکرائے اور بولے، ”وقت کے ساتھ سب سمجھ جاؤ گے۔ لیکن یاد رکھو، اس دنیا اور اس کے رازوں کے پیچھے مت بھاگو، ورنہ خود کو کھو دو گے۔“