’’صرف دو رتی افیون کے لیے مجھے اتنی زیادہ تکالیف برداشت کرنی ہوں گی؟ یہ تو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا، اور اب اس مصیبت سے بچنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس تپتی دوپہر میں نہر کے کنارے موٹر سائیکل دوڑاتے ہوئے میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ آخر یہ لالو قصائی مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ اس کی بے جا آوارگی اور مسلسل چلتے چلتے گاؤں گاؤں گھومنا مجھے سخت پریشان کر رہا تھا۔‘‘ ’’ہم تین بار پولیس کے ہاتھوں مشتبہ سمجھے جا چکے تھے، مگر ہر بار اپنے آپ کو صحافی ظاہر کر کے ان سے بچ نکلتے تھے۔ اور اب افیون کی تلاش میں ایک اور نئے گاؤں کی طرف جا رہے تھے۔‘
‘ ’’نہر کے سیفل سے ایک کوس پہلے جب لالو قصائی نے موٹر سائیکل کا رخ ملیاں گاؤں کی طرف موڑا تو مجھے خوف محسوس ہوا۔ ملیاں منشیات فروشوں کا گڑھ تھا، اور میں اس جگہ میں قدم رکھنے سے بہت ڈر رہا تھا۔ میں نے فوراً موٹر سائیکل روک دی اور سخت لہجے میں لالو سے کہا، ‘‘ ’’لالو، اب ملیاں جانے کی ضرورت کیا ہے؟ تم نے مجھے بارہ گاؤں گھمادیا، اور ہر بار یہی کہا کہ ہمارا کام فلاں گاؤں میں ہو جائے گا، لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔‘‘ ’’لالو نے میری باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے جواب دیا، ’’چودھری صاحب، غصہ نہ کریں، میں بھی خوار ہو رہا ہوں۔ لیکن آپ کی خاطر یہ سب کر رہا ہوں۔ مجھے آج میلے سے جانور خریدنے جانا تھا، اور کل گوشت کے لیے ایک بھی جانور نہیں ہے، مگر میں پھر بھی صرف آپ کی خاطر اس کڑوی حقیقت کو برداشت کر رہا ہوں۔‘‘ یہ سن کر میں نے ایک لمحے کے لیے سر جھکایا، مگر پھر فوراً خود کو سنبھال کر کہا،
’’یہ کھیل اب بہت دور جا چکا ہے، اور اگر اس کا کوئی اور مقصد ہے تو وہ میں جاننا چاہتا ہوں۔‘‘ لالو کے چہرے پر ایک ہنسی آئی، مگر اس نے کچھ نہ کہا۔ ہم دونوں پھر سے سفر پر روانہ ہوئے، اور میں دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ آخرکار مجھے کہاں لے جا کر یہ ساری مہم ختم ہو گی؟
یہ واقعہ ایک نوجوان کی زندگی کی عجیب و غریب داستان ہے، جسے ایک دکھی عورت کی مدد کے لیے ایک شرمناک مہم پر جانا پڑا۔ اس نوجوان کا نام لالو تھا اور وہ ایک معمولی قصائی کا بیٹا تھا۔ اس کے والد کا گوشت کا کاروبار تھا، جو اس کے خاندان کی ایک طویل روایتی روایت تھی۔ لالو قصائی کی شخصیت ایک عام گاؤں والے کی سی تھی، مگر اس کے اندر ایک چالبازی، مکاری اور بدزبانی کا عنصر چھپا ہوا تھا۔ ایک دن نوجوان کی زندگی کا رخ اس وقت بدل گیا جب اسے لالو قصائی کی مدد کے لیے ایک خطرناک مہم پر جانا پڑا۔ نوجوان کو اپنی سالانہ امتحانات کی فکر تھی، مگر وہ ایک وعدے کے تحت لالو کے ساتھ تھا۔ اس کا خوف یہ تھا کہ اگر پولیس نے انہیں پکڑ لیا اور افیون برآمد ہو گئی تو اس کی عزت اور خاندان کی شہرت پر سوال اٹھ سکتا تھا۔
رات کے وقت، جب وہ ملیاں پہنچنے والے تھے، لالو قصائی نے نوجوان کو روکا اور کہا کہ مکھن سائیں کی زیارت کرنی چاہیے۔ نوجوان نے انکار کیا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ منشیات کے علاقے میں پھنس جائے۔ مگر لالو قصائی اسے اس مقام پر لے آیا جہاں مکھن سائیں کا آستانہ تھا۔ مکھن سائیں کی شخصیت میں کچھ ایسا تھا کہ نوجوان نے بھی اس کی زیارت کی اور وہ دیکھتے ہی رہ گیا۔ مکھن سائیں ایک عجیب و غریب شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا سیاہ چوغہ اور طرز زندگی نے نوجوان کو حیرت میں ڈال دیا۔ ان کے مریدوں کا یہ عقیدہ تھا کہ مکھن سائیں ایک بزرگ ہستی ہیں جن کے آستانے پر لوگوں کو روحانی سکون ملتا تھا، اور پولیس کبھی ان کے مریدوں کو ہاتھ نہیں ڈالتی تھی۔
ایک دن پولیس نے مکھن سائیں کے آستانے پر چھاپہ مارا، مگر پولیس کے اہلکاروں کو حیرانی کا سامنا اس وقت ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ مکھن سائیں قبر میں چلہ کاٹ رہے تھے۔ ان کے مرید اس کی حفاظت کر رہے تھے، اور پولیس کو کسی قیمت پر ان کو چھیڑنے کی اجازت نہ تھی۔ پولیس کے اس چھاپے کے دوران ایک عجیب اور پراسرار منظر پیش آیا جب انسپکٹر نے ان مریدوں کو گھیر لیا، اور ان سے پوچھا کہ مکھن سائیں کہاں ہیں۔ مریدوں نے انہیں بتایا کہ وہ قبر میں چلہ کاٹ رہے ہیں۔ پولیس نے قبر کو کھودا اور اندر سے کافور کی خوشبو آئی، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ مکھن سائیں واقعی ایک روحانی ہستی ہیں۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک نوجوان کی خوفناک مہم کا قصہ تھا بلکہ اس میں ایک گہری روحانیت اور مذہبی عقیدت کا بھی بیان تھا۔ اس کی حقیقت یہ تھی کہ ایک شخص جسے معاشرہ کمتر سمجھتا تھا، وہ اپنے مرشد کی ہدایت پر چل کر ایک نئی زندگی کی راہ پر گامزن ہو چکا تھا۔
کہانی کا دوسرا حصہ