دسویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
۔۔۔ کریں اور باقی معاملہ مجھ پر چھوڑ دیں۔ میں کسی نہ کسی طرح زلیخا سے بات کرنے کی کوشش کروں گا۔ ان کے چہرے پر امید کی ایک جھلک دکھائی دی، لیکن یہ بھی واضح تھا کہ وہ مکمل طور پر بے یقینی کے عالم میں تھے۔
زلیخا سے بات کرنا میرے لیے سب سے مشکل کام تھا۔ وہ نہ صرف پیر ریاض شاہ اور بابا جی کی اندھی عقیدت میں مبتلا تھی بلکہ اس کی اپنی والدہ بھی اس شادی کے حق میں تھی۔ میں نے خود کو کئی بار سمجھایا کہ میرے جذبات یا خواہشات کا اس معاملے میں کوئی مقام نہیں، لیکن دل کا کیا کریں؟
اگلے دن میں نے ہمت جمع کی اور زلیخا سے بات کرنے کی ٹھانی۔ وہ باغ میں اکیلی بیٹھی تھی، کسی سوچ میں گم۔ میں نے آہستہ سے اس کے قریب جا کر سلام کیا۔ وہ چونکی اور میری طرف دیکھنے لگی۔
“زلیخا بی بی، کیا میں آپ سے ایک بات کر سکتا ہوں؟” میں نے ادب سے کہا۔
“کہیے، آپ تو چاچا جی کے بہت قریب ہیں۔” اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، لیکن اس کی مسکراہٹ میں ایک عجیب سا سکوت تھا۔
“یہ جو بات پیر ریاض شاہ کی ہو رہی ہے… آپ واقعی اس فیصلے سے خوش ہیں؟”
زلیخا نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ “یہ میرے بابا جی کا فیصلہ ہے، اور میں ان کے ہر حکم کو ماننے کی پابند ہوں۔”
“لیکن…” میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا، “یہ آپ کی زندگی کا فیصلہ ہے، زلیخا بی بی۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کا دل کیا چاہتا ہے؟”
“دل؟” وہ ہنسنے لگی، لیکن اس کی ہنسی میں دکھ کا عنصر نمایاں تھا۔ “میرے دل کا کیا ہے؟ بابا جی جو بہتر سمجھتے ہیں، وہی میری خوشی ہے۔”
میں نے گہری سانس لی اور دھیمے لہجے میں کہا، “زلیخا بی بی، زندگی میں کچھ فیصلے ایسے ہوتے ہیں جنہیں خود سے لینا پڑتا ہے۔ اگر آپ اس شادی کے لیے راضی نہیں ہیں تو آپ کے والد بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔”
اس نے میری طرف دیکھا، اور پہلی بار اس کی آنکھوں میں ہچکچاہٹ اور خوف واضح تھے۔ “آپ یہ سب کیوں کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کو میرے بابا جی یا پیر صاحب پر یقین نہیں؟”
“یہ یقین یا عدم یقین کا سوال نہیں، زلیخا بی بی۔ یہ آپ کے حق کا سوال ہے۔ اگر آپ خوشی سے اس شادی کے لیے تیار ہیں تو پھر ٹھیک ہے، لیکن اگر آپ کے دل میں ذرا بھی شک ہے تو آپ کو اپنی بات کہنی چاہیے۔”
زلیخا کچھ دیر خاموش رہی، پھر دھیمی آواز میں بولی، “میں نے کبھی اپنی زندگی کا فیصلہ خود نہیں کیا۔ لیکن… آپ کی بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔”
میں نے زلیخا کو مزید کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا اور وہاں سے ہٹ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ بات اس کے دل و دماغ میں ہلچل پیدا کرے گی۔
اب میرے لیے یہ اہم تھا کہ میں چاچا جی کو امید دلاؤں اور ان کے ساتھ مل کر کوئی حل تلاش کروں۔ یہ جنگ نہ صرف زلیخا کی آزادی کے لیے تھی بلکہ چاچا جی کی عزت اور میرا اپنا سکون بھی اس سے وابستہ تھا۔